Saturday, July 24, 2010




کیا آپ کو ذاکر نائیک اور اس کا یزید کے لیے 'رضی اللہ عنہ' کہنا یاد ہے؟ کیا آپ کو اُس 'واحد' دلیل کا علم ہے جو ذاکر نائیک نے اس کے حق میں دی تھی؟"
کیا آپ کو ذاکر نائیک اور اس کا یزید کے لیے 'رضی اللہ عنہ' کہنا یاد ہے؟ کیا آپ کو اُس 'واحد' دلیل کا علم ہے جو ذاکر نائیک نے اس کے حق میں دی تھی؟" 


ایک جعلی حدیث کے ذریعے یزید کا دفاع کرنے کی کوشش





کیا آپ کو ذاکر نائیک اور اس کا یزید کے لیے "رضی اللہ عنہ" کہنا یاد ہے؟ کیا آپ کو اُس "واحد" دلیل کا علم ہے جو ذاکر نائیک نے اس کے حق میں دی تھی؟ ذاکر نائیک اور دیگر تمام یزید ِپلید کے محبان فقط صیح بخاری میں موجود ایک روایت کو بنیاد بناتے ہوئے یزید جیسے زانی، شرابی، قاتل، فاسق فاجر شخص کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح اپنی رگوں میں ناصبیت کا نجس خون دوڑنے کا ثبوت دیتے ہیں۔ آئیے اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور ان لوگوں کے جھوٹ کو اللہ کی مدد سے بے نقاب کرتے ہیں۔



شام کے ناصبیوں کی جھوٹی گھڑی ہوئی روایت



سب کو علم ہے کہ شام کے ناصبی بنی امیہ کے زبردست حمایتی تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک ایسی روایت گھڑی کہ جس سے وہ بنی امیہ کے خلفاء کو جرائم سے پاک کر کے انہیں جنتی بنا سکیں۔ روایت یہ ہے:



حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا



خالد بن معدان روایت کرتاہے:عمیر بن الاسود عنسی نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ عبیدہ بن الصامت کے پاس گیا جبکہ وہ حمص شہر کے ساحل سمندر کے قریب ایک مکان میں اپنی زوجہ ام حرام کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔ عمیر نے بیان کیا کہ ام حرام نے انہیں بتایا کہ انہوں نے رسول (ص) سے سنا: میری امت کا پہلا لشکر جو بحری جہاد کرے گا، انکے لئے جنت واجب ہو گی۔ اُم حرام نے پوچھا، یا رسول اللہ، میں ان میں شامل ہوں؟ فرمایا ہاں تو ان میں سے ہے۔ پھر رسول ص نے فرمایا، میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر جہاد کرے گا، وہ مغفور (یعنی بخشا بخشایا) ہے۔ ام حرام نے پوچھا، کیا یا رسول اللہ ص میں بھی ان میں سے ہوں گی؟ فرمایا نہیں۔





اس روایت میں موجود نقائص



اس روایت میں چند بڑے نقص ہیں:



1. یہ روایت "خبر ِواحد" ہے اور صرف اور صرف ایک طریقے سے بیان ہوئی ہے۔ اور نہ صرف یہ "خبر ِواحد" ہے بلکہ یہ اُن تمام روایات کے ذخیرے کے خلاف ہے جو کہ پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر کے متعلق پیش آنے والے واقعات کو بیان کر رہی ہیں۔



2. اس روایت کے تمام کے تمام راویوں کا تعلق شام سے ہے جو کہ ناصبیوں کا دارالحکومت تھا اور یہاں سے اہل ِبیت علیہم السلام پر مساجد کے منبر رسول سے 90 سال تک مسلسل گالیاں دی جاتی رہی ہیں۔



3. شام کے ناصبی بنی امیہ کی شان میں جھوٹی روایات گھڑتے تھے تاکہ انکا مقام بلند مسلمانوں کی نگاہ میں بلند کیا جا سکے۔




4. ان ناصبیوں کا طریقہ کار آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اگر اہلبیت علیہم السلام کی شان میں کوئی روایت موجود ہو گی، اور اس میں غلطی سے بھی کوئی راوی کوفے کا آ جائے (چاہے وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہو) تو یہ اسے یہ کہہ کر فورا رد کر دیتے ہیں کہ کوفے والوں کی گواہی اہلبیت علیہم السلام کے حق میں قبول نہیں کیونکہ یہ انکے حامی تھے۔ مگر جب بات آتی ہے شام کے ناصبیوں اور انکی بنی امیہ کی مدح سرائی کی، تو ہر قسم کی روایت کو چوم کر احترام سے سر پر رکھ لیتے ہیں۔



امام ابن حجرعسقلانی صحیح بخاری کی شرح لکھتے ہوئے اس روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں:



قوله‏:‏ ‏(‏عن خالد بن معدان‏) بفتح الميم وسكون المهملة،والإسناد كله شاميون




یعنی اس روایت کے تمام راوی شامی ہیں۔




ناصبی و منافق ثور بن یزید



اس روایت کا ایک راوی ثور بن یزید ہے۔ اگرچہ اس روایت کے تمام شامی راویوں میں سے کسی ایک میں بھی اہل ِبیت علیھم السلام کی محبت نہیں تھی لیکن یہ ثور بن یزید ان میں سے بدترین شخص ہے۔ ہلسنت کے علم رجال کے بڑے آئمہ میں سے ایک یعنی امام محمد ابن سعد اس ثور بن یزید کے متعلق لکھتے ہیں:



وكان جد ثور بن يزيد قد شهد صفين مع معاوية وقتل يومئذ فكان ثور إذا ذكر عليا، عليه السلام، قال: لا أحب رجلا قتل جدي.



ثور بن یزید کے (شامی) اجداد معاویہ ابن ابی سفیان کے ہمراہ جنگ صفین میں موجود تھے اور اُس جنگ میں (حضرت علی کی فوج کے ہاتھوں) مارے گئے تھے۔ چنانچہ جب بھی یہ ثور علی (ابن ابی طالب) کا نام سنتا تھا تو کہتا تھا: ’میں اُس شخص کا نام سننا پسند نہیں کرتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا ہے‘۔



 طبقات ابن سعد، جلد 7 ص 467



اور امام مالک کبھی بھی اس ثور بن یزید سے روایت نہیں کیا کرتے تھے۔ تبلیغی جماعت کے سربراہ شیخ احمد علی سہارنپوری نے بخاری شریف کی شرح لکھی ہے۔ وہ اس شرح کی جلد1 صفحہ 409 پر لکھتے ہیں:



صر کے شہر پر پہلے حملے والی روایت ثور بن یزید نے بیان کی ہے اور وہ امیر المومنین (علی ابن ابی طالب) سے دشمنی رکھتا تھا۔



اور سب سے بڑھ کر،علم رجال کے انتہائی بڑے عالم حافظ ابن حجرعسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب، جلد 2، صفحہ 33 پر لکھتے ہیں:




ثور بن یزید قدری مذہب رکھتا تھا ۔اس کے اجداد نے صفین میں معاویہ (ابن ابی سفیان) کی طرف سے جنگ لڑی اور وہ اس جنگ میں مارے گئے۔ چنانچہ جب بھی علی (ابن ابی طالب) کا ذکر ہوتا تھا تو وہ کہتا تھا: میں ایسے شخص کو دوست نہیں رکھ سکتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا ہو۔



اور فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:



ع ثور بن يزيد الحمصي أبو خالد اتفقوا على تثبته في الحديث مع قوله بالقدر قال دحيم ما رأيت أحدا يشك أنه قدري وقال يحيى القطان ما رأيت شاميا أثبت منه وكان الأوزاعي وبن المبارك وغيرهما ينهون عن الكتابة عنه وكان الثوري يقول خذوا عنه واتقوا لا ينطحكم بقرنيه يحذرهم من رأيه وقدم المدينة فنهى مالك عن مجالسته وكان يرمي بالنصب أيضا وقال يحيى بن معين كان يجالس قوما ينالون من علي لكنه هو كان لا يسب قلت احتج به الجماعة ...


 فتح الباری، ج 1 ص 394



رسول اللہ کی گواہی :علی بن ابی طالب سے بغض رکھنے والا منافق ہے





قال ‏ ‏علي ‏ ‏والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إلي ‏ ‏أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ‏



زر کہتے ہیں کہ علی (ابن ابی طالب ) نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جو ایک بیج سے زندگی پیدا کرتا ہے کہ رسول اللہ ص نے مجھے سے وعدہ فرمایا کہ اے علی نہیں کرے گا تجھ سے کوئی محبت سوائے مومن کے، اور نہیں رکھے گا کوئی تجھ سےکوئی بغض سوائے منافق کے۔


 صحیح مسلم، حدیث 113




اگر اب بھی علی بن ابی طالب سے کھلا بغض رکھنے والے اس ناصبی و منافق کی روایت اگر کوئی سرآنکھوں پر رکھنا چاہے تو اللہ اُس کا نگہبان اور اسکا حشراسی ثور بن یزید کے ساتھ ہو۔ آمین۔





پہلی بحری جنگ کی اہمیت بالمقابل بیعت رضوان



محترم قارئین، اگر یہ روایت واقعی صحیح ہے تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلا کہ پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملہ کرنے کی اہمیت بیعت ِرضوان کے برابر ہے؟ بلکہ بیعت رضوان کے وقت تو اللہ انکے صرف ایک فعل سے راضی ہوا تھا لیکن بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملہ کرنے کی صورت میں تو جنت اور مغفور ہونے کا وعدہ تو بیعت رضوان سے بھی بہت بڑا ہوا!



اب بیعت رضوان کی اہمیت خود دیکھئے کہ اللہ خود اسکا ذکر قرآن پاک میں کر رہا ہے۔ پھر اللہ کا رسول (ص) خود اپنے ہاتھوں پر بیعت لے رہے ہیں اور پھر یہ بیعت رضوان ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر عام ہو جاتا ہے۔ صحابہ کا پورا ایک مرتبہ بن جاتا ہے کہ کس نے بیعت رضوان میں شرکت کی اور کس نے نہیں اوربیعت رضوان میں حصہ لینے والے صحابہ کا نام سینکڑوں کتابوں میں سینکڑوں روایات کی صورت میں محفوظ ہو جاتا ہے۔




سوال: پھر بحری جنگ کی روایت جو اہمیت میں بیعت رضوان کے برابر ہے، وہ کیوں صرف اور صرف ایک خاتون بیان کر رہی ہیں؟





کیا آپ کو علم ہے کہ اس پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملے والی روایت صرف اور صرف ایک عورت سے مروی ہے؟ اب چند سوالات یہ اٹھتے ہیں:



1. اگر پہلی بحری جنگ اتنی ہی اہم تھی جتنی کہ بیعت ِرضوان، تو پھر اسکا علم صرف اور صرف ایک عورت کو ہی کیوں تھا؟



2. اور پھر یہ کہانی بھی اُس خاتون سے اُس وقت منسوب کی جاتی ہے جبکہ انکی رحلت ہو چکی ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ خاتون نہ اسکی تصدیق کر سکتی تھیں اور نہ تردید ۔




اگر یہ پہلی بحری جنگ اور قیصر پر شہر پر حملہ کرنے والی روایت اتنی ہی اہم تھی تو پھر کیا یقینی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ:

  • رسول اللہ (ص) اس بحری جنگ میں جنت و مغفور ہونے کی یہ بشارت بار بار صحابہ کو سناتے تاکہ اُن کے دلوں میں اس جنگ میں حصہ لینے کی تمنا زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتی؟



  • اور پھر صحابہ ان جنگوں میں حصہ لینے پرجنت کی بشارت کو اسلامی سلطنت کے کونے کونے سے پھیلا دیتے تاکہ ہر کونے سے مسلمان آ کر جنت حاصل کرتے؟
لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ اسکے بالکل برعکس:
  • ایک بھی صحابی کو اس جنت کی بشارت کا علم نہیں ہوتا۔




  • اور ایک بھی صحابی اس جنت کی بشارت کو دوسروں تک نہیں پہنچاتا۔



  • حتٰی کہ وہ فوج جو اس پہلی بحری جنگ میں شرکت کرتی ہے، وہ بذات خود ایسی کسی جنت کی بشارت کے متعلق نہیں جانتی تھی۔
اور یہ روایت صرف اور صرف اُس وقت منظرعام پر آتی ہے جب:
  • پہلی بحری جنگ کو انجام پائے ہوئے ہوئے کئی سالوں کا عرصہ گزرگیا تھا۔



  • بلکہ یہ روایت تو قیصر کے شہر پر حملے کے بھی کئی سالوں کا عرصہ گزرجانے کے بعد منظر عام پر لائی گئی کہ جبکہ یہ خاتون صحابیہ ام حرام کا انتقال ہو چکا تھا اور کوئی بھی ایسا شخص زندہ نہیں بچا تھا جو کہ ان شامی راویوں کی کذب بیانی کو جھٹلا پاتا جو وہ صحابیہ ام حرام پر باندھ رہے تھے۔

تاریخ طبری سے سن 28 ہجری کے پہلی بحری جنگ کےمتعلق تمام تر روایات

محترم قارئین، بہت اہم ہے کہ ہم سن 28 ہجری میں پہلی بحری جنگ میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق کتابوں میں موجود تمام روایات پڑھیں۔ اس کے بعد یزید کا کوئی حامی آپ کو کسی قسم کا جھوٹ گھڑ کر دھوکہ نہیں دے سکے گا۔ انشاء اللہ۔ ہم ذیل میں تاریخ طبری سے روایات پیش کرنے جا رہے ہیں۔ اہل ِسنت میں تاریخ میں طبری کی اس کتاب کو ماں کی حیثیت حاصل ہے اور بعد میں لکھی جانی والی کتب زیادہ تر اسی کی روایات پر بھروسہ کرتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔ نوٹ: ذیل کی روایات کا ترجمہ ہم طبری کے مستند ترین انگلش ترجمے سے پیش کر رہے ہیں (اردو میں موجود دارالاشاعت یا نفیس اکیڈمی کا ترجمہ اکثر انتہائی تحریف شدہ یا غلط ہوتا ہے۔ یہ تحریف افسوسناک بات ہے۔

پہلی روایت: حضرت عمر کو اس جنت کی بشارت کا کچھ علم نہیں اور نہ ہی وہ پہلی بحری جنگ کی اجازت دیتے ہیں

یدہ اور خالد بیان کرتے ہیں: حضرت عمر ابن الخطاب کے دور حکومت میں معاویہ ابن ابی سفیان نے اُن کو خط لکھا اور بحری بیڑے کی تیاری کی اجازت طلب کی۔ اور لکھا کہ (روم اسقدر قریب ہے کہ) حمص شہر کی ایک بستی میں وہاں کے لوگ روم کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے کڑکڑانے کی آواز سنتے ہیں۔ (معاویہ نے) حضرت عمر پر اس حد تک دباؤ ڈالا کہ وہ تقریبا اسکی اجازت دینے والے تھے۔ لیکن حضرت عمر نے پھر عمرو بن العاص کو خط لکھا اور کہا کہ وہ انہیں سمندر اور اسکے مسافروں کا حال بیان کریں کیونکہ ان کے دل میں اسکے بارے میں تشویش ہے۔ عمرو بن العاص نے تحریر کیا: ’میں نے بہت سے لوگوں کو کشتیوں میں سوار دیکھا ہے جب وہ کشتی جھکتی ہے تو دل دہلنے لگتا ہے اور جب وہ حرکت کرتی ہے تو حوش و حواس اڑا جاتے ہیں۔ اس (سفر) سے یقین کم رہ جاتا ہے اور شک و شبہ کی زیادتی ہوتی ہے۔ لوگ اس میں اس طرح سوار ہوتے ہیں جیسے ایک کیڑا لکڑی پر سوار ہوتا ہے۔ اگر لکڑی ذرا بھی پلٹ جائے تو کیڑا ڈوب جائے اور اگر سلامتی سے کنارے لگ جائے تو کیڑا حیران ہو کر رہ جائے۔ جب حضرت عمر نے یہ خط پڑھا تو انہوں نے معاویہ ابن ابی سفیان کو لکھا: ’اس ذات کی قسم! جس نے محمد ص کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں سمندر پر کسی مسلمان کو کبھی سوار نہیں کروں گا‘۔ تاریخ طبری (انگریزی)، ج 16 سن 28 کے حالات

تبصرہ:

1. سب سے پہلی بات نوٹ کریں کہ رسول اللہ (ص) کی وفات کو ایک طویل عرصہ گذر چکا ہے اور اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے متعلق سرے سے کوئی معلومات ہی نہیں۔ 2. حضرت ابو بکر کا دور خلافت ڈھائی سال تک رہتا ہے اور اس پورے دور میں ہمیں اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے متعلق کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ اس جنت کی بشارتی بحری جنگ کے متعلق ہمیں دور دور تک وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آتا جو کہ حضرت ابو بکر نے جیش اسامہ کی روانگی کے وقت دکھایا تھا۔ 3. پھر حضرت عمر کی خلافت کا طویل عرصہ شروع ہوتا ہے جو دس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس دوران مسلمان فوجیں ایشیا و افریقہ میں ہر طرف روانہ کی جاتی ہیں اور مسلمان فارس ایران کو فتح کر لیتے ہیں اور دوسری طرف افریقہ میں مسلسل آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان دس سالوں میں ہر طرف فوج روانہ ہوتی ہے، اور نہیں ہوتی ہے تو ایک اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے لیے روانہ نہیں ہوتی۔ 4. پھر معاویہ ابن ابی سفیان گورنر مقرر ہوتا ہے اور وہ پہلا شخص ہے جو سمندر کے راستے بازنطینی ریاست پر حملہ آور ہونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ مگر معاویہ ابن ابی سفیان خود ایسی کسی بھی جنت کی بشارتی جنگ سے ناواقف ہوتا ہے۔ چنانچہ معاویہ ابن ابی سفیان جب مرکز میں حضرت عمر کو جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے دلائل دینے کی کوشش کرتا ہےتو اس جنت کی مغفور و بخشے جانی والی بحری جنگ کا ذکر نہیں کرتا۔ بلکہ انتہائی مضحکہ خیز اکلوتی دلیل کے طور پربازنطینی سلطنت کے "کتوں کے بھونکنے" اور "مرغیوں کے کڑکڑانے" کا ذکر کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر یقینی طور پر ان کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے کڑکڑانے کی مضحکہ خیز دلیل پر کان نہیں دھرتے بلکہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ ایک بھی مسلمان کو اس کے لیے سمندر کے حوالے نہیں کریں گے، دوسرے الفاظ میں ناصبیوں کی منطق کے مطابق حضرت عمر قسم کھاتے ہیں کسی مسلمان کو اس پہلی بشارتی بحری جنگ کے ذریعے جنت میں نہیں جانے دیں گے۔ معاذ اللہ۔ 5. کیا یزید ِپلید کے حامی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عمر سمندر کا حال سن کر ڈر گئے تھے؟ یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر کو رسول اللہ (ص) کی اس بشارت پر یقین نہ تھا کہ پہلی بحری جنگ میں شرکت کرنے پر جنت کی بشارت ہے؟ 6. جیسا کہ ہم نے پہلے ہی واضح کیا کہ خود معاویہ کو ایسی کسی بشارت کا علم نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاویہ کے علاوہ کوئی ایک بھی صحابی ایسا تھا جس نے اس پورے عرصے میں بحری جنگ کا ذکر کیا؟ خود سوچئیے کہ اگر واقعی پہلی بحری جنگ بیعت رضوان کی طرح اہم ہوتی تو ہزاروں لاکھوں صحابہ میں سے کوئی ایک تو اسکے لیے زبان کھولتا۔

تاریخ طبری سے دوسری روایت

جنادہ بن ابی امیہ ازدی سے روایت ہے: معاویہ نے حضرت عمر کو خط لکھا اور انہیں بحری جنگ کے لیے یہ کہتے ہوئے اکسایا: ’یا امیر المومنین، شام کی ایک بستی کے لوگ بازنطینی ریاست کے کتوں کے بھونکنے اور انکی مرغیوں کے چلانے کی آوازیں سنتے ہیں کیونکہ یہ بازنطینی ریاست کے یہ لوگ حمص کے ساحل کے بالمقابل ہیں‘۔ اب حضرت عمر اس پر شک کا شکار ہو گئے کیونکہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھا جو اس بات کا مشورہ دے رہا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر نے عمرو بن العاص کو لکھا کہ وہ انہیں سمندر کے متعلق بیان کرے۔ عمرو بن العاص نے انہیں لکھا:’یا امیر المومنین، بہت لوگ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ وہاں آسمان اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ وہاں اس طرح سوار ہوتے ہیں، جیسے لکڑی پر کیڑا سوار ہو۔ اگر الٹ پلٹ ہو گئی تو ڈوب جاتے ہیں اور بچ گئے تو صحیح سالم رہتے ہیں‘۔ یہ روایت بالکل پہلی والی روایت جیسی ہے۔ بہرحال اس میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اس بات پر شک کا شکار اس لیے ہوئے کہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھا جو کہ اس جنگ کا مشورہ دے رہا تھا اور اسی لیے انہوں نے عمرو بن العاص کو خط لکھا۔

تاریخ طبری سے تیسری روایت

طبری جنادہ بن امیہ، ربی اور المجلد سے روایت کرتے ہیں: عمر ابن خطاب نے معاویہ کو تحریر کیا: ’میں نے سنا ہے کہ بحر شام (بحیرہ روم) خشکی کے طویل ترین حصہ کے نزدیک ہے اور ہر روز و شب اللہ سے اجازت مانگتا ہے کہ وہ زمین میں سیلاب کی صورت میں آ کر اسے غرق کر دے۔ تو پھر میں اپنی فوجیں کیسے اس کافر چیز میں بھیج دوں؟ خدا کی قسم میرے لیے ایک مسلمان کی جان پوری رومی سلطنت سے زیادہ پیاری ہے۔ چنانچہ تم میری بات کی مخالفت کرنے سے باز آ جاؤ۔ میں تمہیں اس بات کا حکم (پہلے) ہی دے چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ علاء ابن حضرمی کا میرے ہاتھوں (حکم عدولی) پر کیا حشر ہوا تھا جبکہ میں نے تو اسے ایسے کھلے اور صاف احکامات بھی نہیں دیے تھے‘۔ تبصرہ: 1. پہلی بحری جنگ پر جنت کی بشارت تو رہی ایک طرف، حضرت عمر ابن الخطاب تو معاویہ کو زبردست طریقے سے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ 2. اگر واقعی ایسی کوئی جنت کی بشارت ہوتی تو پھر کیا لوگ یہ خیال کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر یوں غصہ ہو کر اتنی خطرناک دھمکی خیز الفاظ استعمال کرتے؟

تاریخ طبری سے چوتھی روایت:جبری فوجی بھرتی پر پابندی

امام طبری خالد بن معدان سے روایت کرتے ہیں: پہلا شخص جس نے بحری جنگ کی، وہ معاویہ ابن ابی سفیان تھے اور یہ حضرت عثمان ابن عفان کا دور تھا۔ (اس سے قبل) معاویہ حضرت عمر سے اس کی اجازت مانگتے رہے لیکن انہیں یہ اجازت نہیں مل سکی۔ اور جب عثمان ابن عفان خلیفہ بنے تو معاویہ ان پر بھی اس کے لیے دباؤ ڈالتے رہے حتی کہ (4 سال) بعد حضرت عثمان ابن عفان نے اسے اس کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ میں یہ حکم دیا: ’کسی کو زبردستی فوج میں بھرتی ہونے پر زور نہ دینا اور نہ ہی قرعہ اندازی کروا کر اس میں نکلنے والے ناموں پر جنگ میں شامل ہونے کے لیے زبردستی کرنا بلکہ انہیں خود اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دینا۔ اور جو اس مہم میں جانے کے لیے تمہاری اطاعت اختیار کریں، انکی مدد کرنا‘۔

تبصرہ:

1. حضرت عمر کی پوری دس سالہ خلافت میں معاویہ کو کوئی کامیابی نہیں ملتی کہ وہ انہیں اس پہلی جنت کی بشارتی جنگ کے لیے آمادہ کر سکے۔ 2. لیکن حضرت عمر کے بعد اب حضرت عثمان ابن عفان بھی اس جنت کی بشارتی جنگ کے لیے تیار نہیں۔ حتی کہ انکی خلافت شروع ہوئے 4 سال کا عرصہ گذر جاتا ہے۔ یعنی حضرت عثمان سن 24 ہجری میں خلیفہ بنے اور یہ پہلی بحری جنگ سن 28 ہجری میں لڑی گئی۔ جن لوگوں نےاسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ان سے ڈھکا چھپا نہیں کہ حضرت عثمان، معاویہ ابن ابی سفیان کے کتنے زیرِاثر تھے کیونکہ انکے مابین قرابت داری تھی۔ لیکن اس پہلی بحری جنگ کے مسئلے پر پھر بھی معاویہ کو حضرت عثمان کو آمادہ کرتے کرتے 4 سال کا عرصہ لگ گیا۔ چنانچہ حضرت عثمان ابن عفان نے آخر کار اجازت دے دی، لیکن اب دیکھئے ان شرائط کو جو تعجب خیز ہیں:
  • حضرت عثمان شرط عائد کر رہے ہیں کہ معاویہ اس جنگ کے لیے جبری بھرتیاں نہیں کرے گا۔



  • اب ذرا تصور کیجئے بیعت رضوان کا اور پھر سوچیئے کہ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جنت کی بشارت کا سن کر لوگ جوق در جوق اسلامی ریاست کے ہر کونے سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اس بشارتی جنگ میں شمولیت کے لیےخود بخود روانہ ہوتے؟
لیکن نہیں، حضرت عثمان پھر بھی ڈر ہے اور وہ اس لیے پابندی عائد کر رہے ہیں کہ جبری فوجی بھرتیاں نہیں کی جائیں۔ اور مرکز سے اس جنت کی بشارتی بحری جنگ میں کتنے ہزاروں صحابہ کی فوج روانہ ہوئی؟ مرکز سے ہزاروں صحابہ کی فوج آمد تو چھوڑئیے، شاید ہی کوئی ایک صحابی مرکز سے اس جنت کے حصول کے لیے آیا ہو۔ اور اس جنگ میں معاویہ کے ساتھ صرف تین چار صحابہ کا نام ملتا ہے۔ ایک عبادہ بن الصامت، ان کی زوجہ ام حرام، اور ابو درداء۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صحابیہ ام حرام (جن سے یہ شام کے منافق راوی نے یہ جھوٹی روایت انکے مرنے کے بعد منسوب کر دی)، ان کے شوہر عبادہ بن الصامت اس جنگ کے بعد زندہ رہے اور انہیں پوری زندگی ایسی کسی جنت کی بشارت کا علم نہ تھا، بلکہ وہ معاویہ پر اُس کے غلط کاموں کی وجہ سے انتہائی تنقید کرتے تھے، اس متعلق آگے آپ روایات ملاحظہ فرمائیں گے۔

حصہ دوم: کیا کوئی ایسی جنت کی بشارت قیصر کے شہر پر حملے کے متعلق موجود ہے؟

جواب ہے: نہیں۔
  • کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں جو دور دور تک یہ بتلاتی ہو کہ جن لوگوں نے اس جنگ میں حصہ لیا انہیں ایسی کسی جنت کی بشارت اور مغفور و بخشے جانے کی بشارت کا علم ہو۔



  • چنانچہ ان ہزاروں روایات میں، جو کہ سینکڑوں کتب میں بکھری ہوئی ہیں، کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں جو اس جنت کی بشارت کا اس پورے عرصے میں ذکر کرتی ہو۔



  • لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
قیصر کے شہر پر پہلے حملے کی تو وہی اہمیت ہے جو کہ بیعت رضوان کی ہے لیکن پھر بھی کسی کو اس بشارت کا علم نہیں۔ حتی کہ وہ فوج جو اس میں حصہ لیتی ہے، اسے بھی دور دور تک اسکا کوئی علم نہیں۔

امام طبری نے اس اہم ترین بشارتی جنگ کا بیان کرنے کے لیے صرف ایک سطر کی جگہ دی

اس جنت کی بشارتی جنگ کا کیا ذکر کرنا، کہ امام طبری کہ جنہوں نے اسلامی تاریخ پر سب سے جامع اور طویل کتاب لکھی، انہوں نے اہم ترین بشارتی جنگ کے بیان کو صرف ایک سطر سے زیادہ جگہ نہ دی۔ امام طبری سن 49 ہجری کے حالات میں لکھتے ہیں: اور یزید بن معاویہ نے روم میں جنگ کی یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔ ابن عباس و ابن عمر و ابن زبیر و ابو ایوب انصاری اس کے ساتھ تھے۔  تاریخ طبری، ج 5 ص 222 امام ابن اثیر پنی تاریخ کی مشہور کتاب ’تاریخ کامل‘ میں اس واقعے کی مزید تفصیلات بیان کر رہے ہیں جو تاریخ طبری میں موجود نہیں، لیکن وہ یزید ابن معاویہ کا اصل چہرہ روشنی میں لا رہی ہیں: في هذه السنة وقيل‏:سنة خمسين سير معاوية جيشًا كثيفًا إلى بلاد الروم للغزاة وجعل عليهم سفيان بن عوف وأمر ابنه يزيد بالغزاة معهم فتثاقل واعتل فأمسك عنه أبوه فأصاب الناس في غزاتهم جوعٌ ومرض شديد فأنشأ يزيد يقول‏:ما إن أبالي بما لاقت جموعهم بالفرقدونة من حمى ومن موم إذا اتكأت على الأنماط مرتفقًا بدير مروان عندي أم كلثوم وأم كلثوم امرأته وهي ابنة عبد الله بن عامر‏.فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه اس سال (سن 49 ہجری) اور کچھ کہتے ہیں کہ سن 50 ہجری میں معاویہ ابن ابی سفیان نے تیاریاں کیں کہ روم کے شہروں اور قصبوں پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں حملے کیے جائیں۔ چنانچہ معاویہ ابن ابی سفیان نے فوجیں روانہ کیں اور اپنے بیٹے یزید کو بھی حکم دیا کہ وہ اس فوج میں شامل ہو جائے لیکن یزید اس معاملے میں سستی دکھاتا رہا حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان اس معاملے میں خاموش ہو گئے۔ یہ فوج جنگ کے دوران بیماری اور بھوک کا شکار ہو گئی اور جب یزید کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشعار پڑھے: ’مجھے اسکی کیا پرواہ کہ فوج فرقدونہ کے مقام پر بخار اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ میں تو آرام و سکون کے ساتھ اعلی پوشاک میں مروان کے گھر میں ام کلثوم کے ساتھ رہ رہا ہوں‘۔ ام کلثوم بنت عبداللہ ابن عامر، یزید کی بیوی تھی۔ جب معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ یزید کو روم میں سفیان ابن عوف کے پاس ضرور بھیجیں گے تاکہ یزید کو مشکلات کا سامنا کر کے انہیں جھیلنا پڑے۔  الکامل فی تاریخ ، ج 2

یزید کے حامیوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کہ کبار صحابہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ایوب انصاری نے اس جنگ میں اس جنت کی بشارت کی وجہ سے شرکت کی

یہ یزید کے حامیوں کا سراسر جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ ایسی کوئی ایک بھی روایت موجود نہیں ہے جو اس جھوٹ کا ذکر کرتی ہو بلکہ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کے بالکل برعکس، اوپر ہم نے امام ابن اثیر کی روایت نقل کی ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے بطور سزا یزید کو روم فوج کے پاس بھیجا تھا۔ یہی روایت آگے بیان کرتی ہے کہ یہ کبار صحابہ (ابن عباس، ابو ایوب انصاری، ابن عمر، ابن زبیر) خود اپنی طرف سے اس جنگ میں نہیں گئے تھے بلکہ معاویہ ابن ابی سفیان نے انہیں یزید کے ہمراہ بھیجا تھا۔ فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه ما أصاب الناس فسار ومعه جمع كثير أضافهم إليه أبوه وكان في الجيش ابن عباس وابن عمر وابن الزبير وأبو أيوب الأنصاري وغيرهم معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ یزید کو روم میں سفیان ابن عوف کے پاس ضرور بھیجیں گے تاکہ یزید کو مشکلات کا سامنا کر کے انہیں جھیلنا پڑے۔ اور معاویہ نے اسکے ساتھ مزید فوج بھی روانہ کی جس میں ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور ابو ایوب انصاری وغیرہ شامل تھے۔ چنانچہ یزید کے حامیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس، پورے ذخیرہ ِ روایات میں ایک بھی روایت ایسی موجود نہیں ہے جو بتلاتی ہو کہ ان کبار صحابہ نے اس جنگ میں کسی جنت کی بشارتی حدیث کی وجہ سے شرکت کی ہو۔ بلکہ انہیں معاویہ ابن ابی سفیان نے روانہ کیا تھا کیونکہ یہ اُس وقت کا بہت ہی اہم محاذ تھا جیسا کہ مسلم افواج پہلے ہی ایران اور دیگر اہم ممالک کو فتح کر چکی تھیں۔ اور صحابہ کا یہ بذات خود طریقہ تھا کہ وہ ہر ہر اہم محاذ پر خود سےجہاد کے لیے روانہ ہوتے تھے اور اسکا کسی بشارت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر جب مدینہ شہر میں حضرت عثمان کے خلاف بغاوت اٹھ رہی تھی تو بہت سے صحابہ سرحدوں پر جہاد میں مصروف تھے اور مدینہ کے صحابہ نے انہیں خط لکھا کہ اصل جہاد تو یہاں مدینہ میں ہے، چنانچہ وہ لوگ واپس مدینہ آ جائیں۔ واقدی نے محمد بن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے: سن ۳۴ ہجری میں رسول ص کے چند صحابہ نے دیگر اصحابِ رسول (ص) کو خطوط لکھے (جو کہ جہاد کی غرض سے دور دراز علاقوں میں گئے ہوئے تھے) کہ: ’تم لوگ واپس مدینہ چلے آؤ چونکہ اگر تمہیں جہاد ہی کرنا ہے تو جہاد یہاں ہمارےپاس مدینے میں ہی ہے‘۔ تاریخ طبری (انگلش ایڈیشن)، جلد 15، صفحہ 140، سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک پریس۔ ایسے ہی ایک اور خط کے متعلق مزید ایک اور روایت امام طبری نے عبدالرحمن بن یسار سے بیان کی ہے اور وہ اسی جلد کے صفحہ 183 پر موجود ہے۔ چنانچہ یہ صحابہ کا عام طریقہ کار تھا کہ وہ سرحدی علاقوں میں جہاد کے لیے جاتے تھے اور اسکا کسی بشارت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ یہ یزید کے حامیوں کا بہت بڑا جھوٹ ہے کہ یہ کبار صحابہ کسی جنت کی بشارت کی وجہ سے اس جنگ میں شریک ہوئے۔

ایک اور بہانہ:حضرت ابو ایوب انصاری بڑھاپے میں جنگ میں شامل ہوئے جس سے ثابت ہوا انہیں جنت کی بشارت کا علم تھا

یہ ایک اور لنگڑا اور جھوٹا بہانہ۔ بجائے اسکے کہ وہ کوئی ایک روایت اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے، یہ لوگ اپنے قیاسات کو اپنا بہانہ بناتے ہوئے پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ عمار یاسر صحابی نے بھی علی ابن ابی طالب کی طرف سے انتہائی بڑھاپے (90 برس کی عمر میں) جنگ صفین میں معاویہ ابن ابی سفیان کے خلاف جنگ کی تھی اور شہادت پائی تھی۔ چنانچہ اب یزید کے حامیوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے کہ وہ فرار ہو سکیں۔ شکر الحمدللہ۔

تاریخ: یزید وہ پہلا شخص نہیں جس نے قیصر کے شہر پر حملہ کیااور نہ ہی یزید نے اسے فتح کیا

آپ نے سنا ہو گا کہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ ایک جھوٹ سے کئی تضادات پیدا ہوتے ہیں اور تضادات کی وجہ سے یہ جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔ ایک بہت ہی اہم حقیقت جو یزید کے حامیوں کے اس جھوٹے پروپیگنڈے میں دب کر رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ: 1. نہ تو یزید وہ پہلا شخص تھا جس نے قیصر کے شہر پر حملہ کیا۔ 2. اور نہ ہی ہی یزید نے قیصر کے اس شہر قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ بلکہ یزید صرف قسطنطنیہ کی دیوار تک پہنچ پایا تھا۔

پہلی حقیقت: یزید نے قسطنطنہ کو کبھی فتح نہیں کیا

امام طبری لکھتے ہیں: سن 49 ہجری کے واقعات: اور یزید ابن معاویہ نے روم میں جنگ کی حتی کہ وہ قسطنطنہ تک پہنچ گیا۔  تاریخ طبری، ج 5 ص 222 اور وکیپیڈیا میں "قسطنطنیہ کی تاریخ" کے ذیل میں لکھا ہے:
In 674 the Umayyad Caliph Muawiyah I besieged Constantinople under Constantine IV. In this battle,the Umayyads were unable to breach the Theodosian Walls and blockaded the city along the River Bosporus. The approach of winter however forced the besiegers to withdraw to an island 80 miles (130 km) away.
 وکیپیڈیا اور یہی تاریخ آپ کو ویب سائیٹ roman-empire.net پر ملے گی:
True History tells Arabs never conquered Constantinople, but it were Muslim Turks who conquered it.
 roman-empire.net یعنی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ یہ عرب مسلم نہیں تھے جنہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا بلکہ یہ مسلم ترک تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ قسطنطنیہ کو فتح کیا۔

دوسری حقیقت: قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ نہیں ہے

بخاری کی اس روایت میں لفظ "قسطنطنیہ" استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ "قیصرکا شہر" کےالفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یزید کے حامی دعوٰی کرتے ہیں کہ قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ قیصر کی حکومت کئی اہم شہروں پر مشتمل تھی اور مسلمان تو یزید کی پیدائش کے قبل سے ہی ان قیصر کے شہروں پر حملے کر رہے تھے۔

تیسری حقیقت: قیصر کے شہروں پر مسلمانوں کے اُن حملوں کی تاریخ جو یزید سے پہلے کیے گئے

پہلی مسلم فوج جس نے قیصر کے شہر [روم] پر حملہ کیا وہ بذات خود رسول اللہ (ص) نے روانہ کی تھی۔ اسکے کمانڈر صحابی زید بن حارث تھے اور رسول اللہ (ص) نے اس جنگ میں حضرت جعفر طیار، زید بن حارث اور حضرت عبداللہ کی شہادت کی خبر دے دی تھی [قبل اسکے کہ یہ خبر مدینہ پہنچتی]۔ دیکھئیے وکیپیڈیا پر جنگ موتہ پر مضمون:  وکیپیڈیا، آن لائن لنک اگر ہم "شہرِ قیصر" سے مراد اسکا دارلخلافہ بھی لیں یعنی شہر حمص تو یہ شہر حمص بھی حضرت عمر ابن الخطاب کے زمانے میں سن 16 ہجری میں فتح ہو گیا تھا۔ اسکے کمانڈر جناب ابو عبیدہ تھے اور صحابی یزید بن ابو سفیان اس فوج میں شامل تھے جبکہ یزید بن معاویہ اس وقت تک پیدا تک نہیں ہوا تھا۔ اور اگر ہم بہت زیادہ تخیل سے کام لیتے ہوئے "شہرِ قیصر" سے مراد صرف اور صرف "قسطنطنیہ" بھی لے لیں تب بھی یزید ابن معاویہ سے قبل مسلم فوجیں قسطنطنیہ پر کئی حملے کر چکی تھیں۔ابن کثیر الدمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں سن 32 ہجری کے واقعات میں لکھتے ہیں: اس سال حضرت معاویہ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ آپ قسطنطنیہ کے درے تک پہنچ گئے اور آپکی بیوی عاتکہ بھی آپ کے ساتھ تھی۔۔۔۔ البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، سن 32 ہجری کے حالات، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 212 پھر قسطنطنیہ پر اگلا حملہ عبداللہ ابن ابی ارطاۃ کی سرکردگی میں سن 42 ہجری میں ہوا اور مؤرخین نے اس کو نقل کیا ہے۔ اگلہ حملہ سن 43 ہجری میں بسر بن ارطاۃ کی قیادت میں ہوا۔ ابن کثیر الدمشقی سن 43 ہجری کے حالات میں لکھتے ہیں: اس سال میں بسر بن ارطاۃ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ قسطنطنیہ کے شہر تک پہنچ گیا اور واقدی کے خیال کے مطابق موسم سرما انکے ملک میں گذارا۔۔۔۔  البدایہ و النہایہ، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، جلد ہشتم، صفحہ 38 اگلا حملہ سن 44 ہجری میں ہوا اور اسکی سرکردگی عبدالرحمن بن خالد بن ولید کر رہے تھے۔ ابن کثیر الدمشقی سن 44 ہجری کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس سال میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید نے بلاد روم کے ساتھ جنگ کی اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ تھے اور انہوں نے موسم سرما وہیں گذارا اور اسی میں بسر بن ابی ارطاۃ نے سمندر میں جنگ کی۔  البدایہ و النہایہ، جلد ہشتم، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 42 اس سے اگلا حملہ سن 46 ہجری میں پھر عبدالرحمن بن خالف بن ولید کی سرکردگی میں ہوا اور انہوں نے موسم سرما بلاد روم میں گذارا ۔بعض کا قول ہے کہ اس میں فوج کا امیر کوئی اور تھا۔ حوالہ: البدایہ و النہایہ، سن 46 ہجری کے حالات، جلد ہشتم، صفحہ 73۔ پھر سن 47 ہجری میں مالک بن ہبیرہ کی سرکردگی میں حملہ ہوا ۔ سنن ابو داؤد کے مطابق اسی سن 47 میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید کا انتقال ہو گیا تھا۔ پھر سن 49 میں روم پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں تین حملے ہو چکے تھے۔ اور ان تین حملوں کے بعد معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم پر زبردستی یزید محاذ تک پہنچتا۔ (دیکھئیے علامہ ابن اثیر کی روایت جو اوپر نقل کی جا چکی ہے)۔ چنانچہ یہ یزید سے قبل قسطنطنیہ پر کیے جانے والے حملوں کی مختصر تاریخ ہے۔ چنانچہ شام کا ناصبی منافق راوی جس نے یہ جھوٹی روایت گھڑی، وہ مسلمانوں کی اس تاریخ سے بے خبر تھا کہ یزید سے قبل مسلمان قسطنطنیہ پر 7 حملے کر چکے تھے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس جھوٹے شامی راویوں کے پاس نہ عقل تھی اور نہ علم۔

یزید کے حامیوں کا انس ابن مالک کی روایت کو بطور ثبوت پیش کرنا

یزید کے حامی الفاظ اور مطالب کو گھما پھرا کر انس ابن مالک کی ذیل کی روایت سے پھر یزید کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.صحیح بخاری، جلد 4، کتاب 52، روایت 56 (انگلش ورژن)۔: انس روایت کرتے ہیں: (صحابیہ) ام حرام کہتی ہیں کہ ایک دن رسول (ص) میرے گھر میں میرے قریب میں سو ئے اور پھر مسکراتے ہوئے اٹھے۔میں نے پوچھا:یا رسول اللہ (ص) آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ (خواب میں) میرے سامنے پیش کیے گئے جو کہ سمندر پر ایسے سفر کر رہے تھے جیسے بادشاہ اپنے تخت پر۔ اس پر ام حرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول (ص) آپ دعا فرمائیے کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے انکے لیے دعا کی اور دوبارہ سو گئے۔ اور کچھ دیر بعد پھر مسکراتے ہوئے اٹھے۔ اور پھر مسکرانے کی وہی وجہ فرمائی ۔ اور پھر فرمایا کہ تم بھی پہلے بحری بیڑے میں شامل ہو۔ بعد میں ام حرام اپنے شوہر عبادہ بن الصامت کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوئیں اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مسلمانوں نے بحری جنگ میں حصہ لیا جو کہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں روانہ ہوا۔ جب وہ اس سے فارغ ہو کر شام واپس جا رہے تھے، تو راستے میں وہ اپنی سواری کے جانور سے گر کر زخمی ہو گئیں اور یوں آپ کا انتقال ہوا۔ چنانچہ یزید کے حامی حضرات کے دعوے کے برعکس اس روایت میں یزید کے لیے یا پہلی بحری جنگ والوں کے لیے کوئی جنت نہیں ہے اور نہ ان کے تمام گناہوں کا بخشے جانا ہے بلکہ یہ روایت تو شامی راویوں کی روایت کی تکذیب کر رہی ہے کیونکہ:
  • اس روایت میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے کہ اس پہلی بحری جنگ میں جانے والوں کے لیے جنت کا وعدہ ہے، جیسا شامی راویوں نے بیان کیا تھا۔



  • اور اس میں یزید کے لیے کوئی ذکر نہیں کہ قیصر کے شہر پر پہلا حملہ کرنے والوں کے تمام گناہ بخشے جائیں گے، جیسا کہ شامی راویوں نے بیان کیا تھا۔
چنانچہ یہ روایت تو بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ شامی راویوں نے اس روایت میں جھوٹ کی ملاوٹ کر کے بنی امیہ کے حرام کا حق ادا کیا۔ نوٹ کریں:
  • شامی راویوں کی روایت کا سب سے اہم حصہ تھا "جنت کی بشارت اور مغفور اور بخشے جانا"۔ مگر انس کی اس روایت میں یہ سب سے اہم حصہ ہی نہیں ملتا۔



  • انس بھانجے تھے ام حرام کے اور اس لیے یہ واقعہ مکمل تفصیل سے بیان کر رہے ہیں لیکن پھر کیسے یہ ممکن ہوا کہ ام حرام اپنے بھانجے کو تو یہ سب سے اہم ترین حصہ بیان نہ کریں لیکن صرف اور صرف ایک نامحرم شامی کو یہ روایت بیان کریں؟




  • چنانچہ انس کو سرے سے ہی اس جنت کی بشارت کا علم نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ جنت حاصل کرنے کے لیے اس جنگ کے لیے روانہ ہوتے ہیں؟ ہے نا حیرت کی بات؟



  • اور انس کسی اور ایک بھی صحابی کو بھی جنت کی اس بشارت کا نہیں بتلاتے ہیں اور یوں مرکز سے ایک بھی صحابی جنت کو حاصل کرنے کے لیے روانہ نہیں ہوتا ہے۔

ام حرام کے شوہر عبادہ بن الصامت کی معاویہ ابن ابی سفیان کے غلط کاموں پر سخت تنقید

صحابی عبادہ بن الصامت جو کہ صحابیہ ام حرام کے شوہر ہیں، نے بذات خود اس پہلی بحری جنگ میں شرکت کی۔ صحابیہ ام حرام کا تو شام واپسی پر سواری کے جانور سے گر کر انتقال ہو گیا، لیکن انکے شوہر عبادہ اسکے بعد بہت عرصے تک زندہ رہے اور انہیں بھی دور دور تک کسی جنت کی بشارت وغیرہ کا علم نہ تھا۔ جنت کی بشارت ایک طرف رہی، یہ صحابی تو معاویہ ابن ابی سفیان کے غلط کاموں کی وجہ سے اُس پر شدید تنقید کرتے رہے۔ آئیے صحابی عبادہ بن الصامت کی رائے دیکھتے ہیں معاویہ ابن ابی سفیان کے متعلق: لما قَدِم عمرو بن العاص على معاوية وقام معه في شأن عليّ بعد أن جعل له مصر طُعمة قال له‏:‏ إن بأرضك رجلاً له شرَف واسم واللّه إنْ قام معك استهويتَ به قلوبَ الرجال وهو عُبادة بن الصامت‏.‏ فأرسل إليه معاوية‏.‏ فلما أتاه وَسّع له بينه وبين عمرو بن العاص فَجَلس بينهما‏.‏فحَمد اللّهَ معاوية وأثَنى عليه وذكر فضلَ عُبادة وسابقَته وذكر فضلَ عُثمان وما ناله وحضّه على القيام معه‏.‏ فقال عُبادة‏:‏ قد سمعتُ ماِ قلتَ أتدريانِ لمَ جلستُ بينكما في مكانكما قالا‏:‏ نعم لفضلك وسابقتك وشرفك‏.‏ قال‏:‏ لا واللّه ما جلستُ بينكما لذلك وما كنتُ لأجلس بينكما في مكانكما ولكن بينما نحن نسير مع رسول اللّه صلى الله عليه وسلم في غَزاة تَبوك إذ نظر إليكما تسيران وأنتما تتحدثان فالتفت إلينا فقال‏:‏ إذا رأيتموهما اجتمعا ففرقوا بينهما فإنهما لا يجتمعان على خير أبداً‏.‏ جب عمرو بن العاص معاویہ کے پاس گیا اور علی ابن ابی طالب کے مقابلے میں معاویہ کے ساتھ کھڑا ہو گیا کیونکہ معاویہ ابن ابی سفیان نے مصر اس کے حوالے کر دیا تھا۔ عمرو نے معاویہ سے کہا: یہاں ایک شرف و عزت رکھنے والا شخص ہے کہ جو کہ اگر تمہارے ساتھ ہو جائے تو تم لوگوں کے دلوں کو جیت لو گے۔ اور یہ شخص عبادہ بن الصامت ہے۔ چنانچہ معاویہ نے عبادہ بن الصامت کو بلا بھیجا اور انہیں اپنے اور عمرو بن العاص کے درمیان میں بیٹھنے کی جگہ دی۔ پھر معاویہ نے اللہ کی حمد پڑھی اور عبادہ کی تعریف کی اور انکی اسلام کی خدمات کا ذکر کیا، اور پھر حضرت عثمان ابن عفان کی فضیلت بیان کی اور جو کچھ انکے ساتھ ہوا اُس کا ذکر کیا اور چاہا کہ عبادہ اسکے ساتھ قیام پر تیار ہو جائیں۔ عبادہ نے فرمایا: ’جو کچھ تم نے کہا وہ میں نے سنا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں کیوں تمہارے اور عمرو بن العاص کے درمیان بیٹھا ہوں؟‘۔ انہوں نے کہا کہ ہاں تمہارے فضل اور سبقت کی وجہ سے۔ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم، میں اس وجہ سے تم دونوں کے درمیان آ کر نہیں بیٹھا ہوں، بلکہ جب ہم جنگ تبوک میں رسول اللہ ص کے ساتھ سفر کر رہے تھے تو رسول اللہ (ص) نے تم دونوں کی طرف دیکھا تھا جب تم باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ پھر رسول اللہ (ص) نے ہماری طرف دیکھا اور ہم سے فرمایا تھاکہ اگر تم ان دونوں کو کبھی اکھٹا دیکھو تو انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دو کیونکہ یہ دونوں کبھی خیر پر اکھٹے نہیں ہو سکتے‘۔  العقد الفرید، جلد ا اور امام ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے: حدثنا أبو بكر قال حدثنا عبد الوهاب الثقفي عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الاشعث قال : كنا في غزاة وعلينا معاوية ، فأصبنا فضة وذهبا ، فأمر معاوية رجلا أن يبيعها الناس في أعطياتهم ، فتسارع الناس فيها ، فقام عبادة فنهاهم ، فردوها ، فأتى الرجل معاوية فشكا إليه ، فقال معاوية خطيبا فقال : ما بال رجلا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث يكذبون فيها عليه ، لم نسمعها ؟ فقام عبادة فقال : والله لنحدثن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية ابی الاشعث کہتے ہیں: ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: ’کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟‘ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص) کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے‘۔  مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 5، صفحہ 297، روایت 363 (2)۔ اور محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب "تحفہ اثناء عشریہ" میں لکھتے ہیں: عبادہ بن الصامت شام میں تھے جب انہوں نے دیکھا کہ معاویہ کا ایک کاروان جس میں اونٹ ہی اونٹ تھے، وہ اپنی پشتوں پر شراب کو لیےجا رہے تھے۔ عبادہ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ شراب ہے جو معاویہ نے بیچنے کے مقصد سے بھیجی ہے۔ اس پر عبادہ چاقو لے کر آئے اور اونٹوں پر بندھی رسیوں کو کاٹ دیا حتی کہ تمام شراب بہہ نہ گئی۔ تحفہ اثناء عشریہ (فارسی) صفحہ 638 یہی شراب والی روایت تاریخ ابن عساکر (جلد 26، صفحہ 197) اور امام الذہبی کی سیر اعلام النبلاء (جلد 2، صفحہ 10) پر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ ان کتب کے جدید ایڈیشنز میں معاویہ کا نام نکال کر "فلاں۔ فلاں" لکھ دیا گیا ہے۔ بہرحال، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ ان کتابوں میں یہ تو موجود ہے کہ عبادہ بن الصامت نے وہ شراب بہائی تھی جو کہ شام کے حاکم کی ملکیت تھی، اور یہ چیز کافی ہے کیونکہ شام کا حاکم معاویہ ابن ابی سفیان تھا۔ اور شیخ الارنوط نے سیر اعلام النبلاء کے حاشیے میں لکھا ہے کہ یہ روایت "حسن" ہے۔ اور علامہ متقی الہندی نے اسی سے ملتی جلتی روایت نقل کی ہے: عن محمد بن كعب القرظي قال‏:‏ غزا عبد الرحمن بن سهل الأنصاري في زمن عثمان، ومعاوية أمير على الشام، فمرت به روايا خمر تحمل، فقام إليها عبد الرحمن برمحه، فبقر كل رواية منها فناوشه ‏(‏فناوشه‏:‏ ناشه ينوشه نوشا، إذا تناوله وأخذه‏.‏انتهى‏.‏النهاية ‏(‏5/128‏)‏ ب‏)‏ غلمانه حتى بلغ شأنه معاوية، فقال‏:‏ دعوه فإنه شيخ قد ذهب عقله فقال‏:‏ كذب والله ما ذهب عقلي ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن ندخله بطوننا واسقيتنا، وأحلف بالله لئن أنا بقيت حتى أرى في معاوية ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبقرن ‏(‏لأبقرن‏:‏ البقر‏:‏ الشق والتوسعة‏.‏ النهاية ‏(‏3/144‏)‏ ب‏)‏ بطنه أو لأموتن دونه‏.‏ محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں: عبدالرحمن بن سہل انصاری نے حضرت عثمان کے دور میں ایک جنگ میں شرکت کی اور اُس وقت معاویہ ابن ابی سفیان شام کا حاکم تھا۔ پھر وہاں سےان کے سامنے سے شراب کے بھرے ہوئے کنستر گذرے۔ اس پر وہ اپنا نیزہ پکڑ کر آگے آئے اور ہر شراب کے کنستر میں انہوں نے نیزہ گھونپ دیا۔ اس پر غلاموں نے مدافعت کی، حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان کو اسکی خبر ہوئی۔ معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ اسے چھوڑ دو کہ یہ بڈھا شخص اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے۔ اس پر عبدالرحمان نے کہا:اللہ کی قسم، یہ (معاویہ) جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے ہرگز اپنے ہوش و حواس نہیں کھوئے ہیں، مگر اللہ کے رسول ص نے ہمیں شراب پینے سے منع کیا تھا۔ اللہ کی قسم اگر میں زندہ رہوں اور مجھے معاویہ وہ کرتے ہوئے نظر آ جائے جس سے رسول ص نے منع کیا تھا، تو پھر یا تو میں معاویہ کی انتڑیوں کو کھول دوں گا یا پھر خود مارا جاؤں گا۔  کنز الاعمال، جلد 5، صفحہ 713، حدیث 13716 یہی روایت ذیل کی اہلسنت کتب میں بھی موجود ہے: فیض القدیر، جلد 5، صفحہ 462، روایت 7969 تاریخ دمشق، جلد 34، صفحہ 420 اسد الغابہ، جلد 1، صفحہ 699، بہ عنوان عبدالرحمان بن سہل بن زید الاصابہ، جلد 4، صفحہ 313، روایت 5140

علما ء اہل ِسنت کی گواہی کی بخاری کی روایت یزید کو فائدہ فراہم نہیں کرتی

وقال المهلب في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر انتهى قلت أي منقبة كانت ليزيد وحاله مشهور فإن قلت قال في حق هذا الجيش مغفور لهم قلت لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة مھلب کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ کے لئے مناقب موجود ہے کیونکہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بحری فتح حاصل کی اور یزید کے لئے بھی کیونکہ اس نے قیصر کے شہر کو فتح کیا۔ میں کہتا ہوں کہ یزید جیسے شخص کے کیا مناقب ہوسکتے ہیں جس کا حال مشہور ہے! اگر تم کہتے ہو کہ رسول اللہ (ص) نے یہ کہا کہ اس لشکر کے لوگوں کے گناہوں کی بخشش ہوگئی تو میں کہونگا کہ یہ ضروری نہیں کہ بغیر کسی استثنا کے ہر ایک فرد اس میں شامل ہو کیونکہ اہل ِعلم (علماء) میں اختلاف نہیں کہ مغفرت مشروط ہے یعنی صرف انہی کے لئے ہے جو اس کے اہل ہوں کیونکہ اگر فتح کے بعد اس لشکر میں سے کوئی شخص بعد میں مرتد ہوگیا ہوتا تو ظاہر ہے وہ ان میں شامل نہ ہوتا جن کی مغفرت ہوچکی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ (اس روایت میں) مغفرت مشروط ہے۔ اسی طرح امام عبدالروف المناوی لکھتے ہیں: لا يلزم منه كون يزيد بن معاوية مغفورا له لكونه منهم إذ الغفران مشروط بكون الإنسان من أهل المغفرة ويزيد ليس كذلك لخروجه بدليل خاص ويلزم من الجمود على العموم أن من ارتد ممن غزاها مغفور له وقد أطلق جمع محققون حل لعن يزيد یہ ضروری نہیں کی یزید کی مغفرت ہوجائے کیونکہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تھا، جیسا کہ مغفرت مشروط ہے ان لوگوں کے لئے جو مغفرت کے اہل ہوں جبکہ یزید ایسا نہیں ہے اور خاص دلیل کی بیان پر یزید کا معاملہ استثنا ہے لیکن اگر ہم اس روایت کے سلسلے میں ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں کہ اس میں ہر ایک شخص شامل ہے تو پھر ہمیں ہر اس اس لشکر میں شامل ہر اس شخص کو بھی شامل کرنا پڑے گا جو بعد میں مرتد ہوگیا۔ مزید یہ بھی کہ علماء نے یزید پر لعنت کرنا حلال قرار دیا ہے۔ فیض القدیر، ج 3 ص 109 حدیث 2811 امام ابن حجر عسقلانی اسی روایت کی شرح میں مزید دو آئمہ ِاہل ِسنت یعنی علام ابن التین اور علامہ ابن المنیر کے الفاظ پر انحصار کرتے ہیں: قال المهلب في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر وتعقبه بن التين وبن المنير بما حاصله أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه و سلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم مھلب کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ کے لئے مناقب موجود ہے کیونکہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بحری فتح حاصل کی اور یزید کے لئے بھی کیونکہ اس نے قیصر کے شہر کو فتح کیا۔ ابن التین اور ابن المنی نے جواب دیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ بغیر کسی استثنا کے ہر ایک فرد اس میں شامل ہو کیونکہ اہل ِعلم (علماء) میں اختلاف نہیں کہ مغفرت مشروط ہے یعنی صرف انہی کے لئے ہے جو اس کے اہل ہوں کیونکہ اگر فتح کے بعد اس لشکر میں سے کوئی شخص بعد میں مرتد ہوگیا ہوتو ظاہر ہے وہ ان میں شامل نہ ہوگا جن کی مغفرت ہوچکی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ (اس روایت میں) مغفرت مشروط ہے۔  فتح الباری، ج 6 ص 102 علماء ِاہل ِسنت کے بیان کردہ عقیدہ اور پیش کردہ مثال ہمیں مزید اچھی طرح سمجھ آتی ہے جب ہم رسول اللہ (ص) کی یہ حدیث پڑھتے ہیں جو کہ اہل ِسنت کی مشہور کتاب ’مسند ابی یعلٰی‘ ج 7 ص 32 میں درج ہے اور جسے کتاب کا حاشیہ لکھنے والے علامہ حسین سالم اسد نے صحیح قرار دیا ہے: أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : يا معاذ قال : لبيك يا رسول الله قال : بشر الناس أنه من قال : لا إله إلا الله دخل الجنة رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ’او معاذ‘۔ معاذ نے کہا: ’جی اللہ کے رسول‘۔ رسول اللہ (ص) نے کہا: ’لوگوں کو بتا دو کہ جس کسی نے کہا ’لا الہٰ الااللہ‘ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘۔ اگر ہم نواصب کی طرح ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں اور رسول اللہ (ص) کے مندرجہ بالا الفاظ کے ظاہری معنی لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر مسلمان جو کہ ’لا الہٰ الااللہ‘ کہتا ہے اور پھر جھوٹ، چوری چکاری، زناکاری، شراب خوری، رشوت خوری، قتل وغیرہ کرتا ہے تو اسے ایسے اعمال کا حساب نہیں دینا ہوگا اور وہ جنت میں داخل ہوگا! کلمہ پڑھ لینا یقینا ً جنت میں جانے کا اہل بنا دیتا ہے اس وقت تک کے لئے جب تک ہم دیگر تمام اسلامی احکامات پر عمل کریں۔


Thursday, May 20, 2010

*Ahl-e-Sunnat ky Aayema ka Taruff*











Note: Thses Page are Take from the book named "Shia Hi Ahl-e-Sunnat Hain" Moulif "Dr. Mohammad Tijjani Samavi"

Sunday, April 18, 2010

Nabi-e-Ummi

Ummi ki ek mane Aqil Garvi sab ne ye b btai thi k: lafz Ummi nikla hy Um (Ma) se, to Ummi mtlb hua Khuda ne Rasool (saww) ko wesa ka wsa i rakha jsa k Ma ki pet se bacha niklta hy aur zamane k hawadis se bachaye rakha.
Iska mtlb ye hua k Nabi apne Uloomat, Mansab, Fazail... lekar Ma k pet se i peda hota hy. Aur Khuda Un ko zamane k hawadas se bacha kr Ummi rakha.
Is liye ye lafz jahan doosron k liye tazlil ka baais hy to waha Nabi (saww) k liye Izzat o Martabe k sabab hy.
Phr Nabi ka Ummi hona khud ek Mujza b hy, take logon per ye bilkul Clear hojaye (aur logon ko gaur o fikr ka moqa mile) k ek Arab k Registano me rehne wala shaks, jo zindagi me na ksi madarse gaya ho aur na ksi ustad se talim hasil ki ho, aur phr achanak mazi hal mustaqbil ki khabren dene lag jaye, jb k uski Sadaqat pure arab me mashoor ho, aur logon per ye b clear ho jaye k Nabi k Alfaz dar haqiqat Khuda k alfaz hyn, aur ye fasih o baligh kitab Quran Nabi ki likhi hui nahi bulke Khuda ki kitab hy !!!
Isi bt ka attalaq Nabi (saww) k bad Moula Ali (as) aur 11 Aima (as) per b hota hy jo dunya me ksi (gair) se talim hasil nahi krte per logon ko dunya wama fiha ki sahi sahi khbren dete hyn bulke khud kehte phrte hy SALUNI QABL AN TAFAQQADUNI!

Wednesday, April 7, 2010

HUSAYN BUS HUSAYN HY!

(HUSSAIN Bs HUSSAIN Hai)

Gulshan-E-Rasool Ka HUSSAIN Aik Phool H,
Baap h, abutorab or maan batool h,

HUSSAIN mah-E-Jabeen H,
HUSSAIN dil nashin H,

HUSSAIN aaj zinda H ye moat ko yaqin H,

Jawab do mujhe zara ye aap se sawal H,

K aaj qoom kis liye zaleel-o-khasta hal H?

Dukhon se choor choor Hai Ghumoon se bhi nidhal H?

Dil se aj mit chala HUSSAIN ka khayal H,

Isi liye to qoom pr zawaal He zawal H,

HUSSAIN pak Baz H khuda ko is p Naz H,

Muhabat-e-HUSSAIN to Namaz He Namaz H,

HUSSAIN Noor-e-Ain H,
HUSSAIN dil ka chain H,

HUSSAIN pr main kiya likhon?

(HUSSAIN Bs HUSSAIN Hai).

Tuesday, April 6, 2010

*Ameer ul Mominin Moula Ameer Ali (a.s) ka Shaam ke Bedeen Haakin Mo'avia Bin Abi Sufiyaan ka Naame Khatt*

... Tu ne mujhy Jang ke lye Lalkara hy!
to
Aisa Kro, Logon ko ek Traf kardo, Or Tum Baazat Khud mere muqable ke lye Bahar Niklo.
Ta ke Dosre Be gunah log Khon Kharabe se Mehfooz rhen Or phir wazeh ho jae k kis ke DIL par zang ki Tehh Charhi hui hy, or Kiski Ankho per parda para hua hy.

Jaan Lo!
Men Wohi ALI IBN ABI TALIB hoon k jisne JANG-E-BADAR ke Medaan men tere NAANA,BHAIE or MAAMOO ke prakhche urae thy.

Wohi Talwaar ab be mere Hath men hi hy, or Men usi Dil-o-Jaan ke sath dushman ka Safaya karta hon,
Na mene Deen Badla hy, or na Koi Nabi Khara kia hy.
Aj bhi Usi sidhay Raste pe hoon jise tu ne Majboori men Qabool kia hy..Nehjulbalagah

Nabi Ka Namaze Janaza

Q:
Huzoor k liay ye kehna k un ka
NAMAZ E JANAZA
Prha gia.!
Ye Gunah hy
Ans:
Ye Aqida Un ka Aam kia hua hy, jo ALI(a.s) k Sakht Dushman thy.
QK
Es Inkaar k pishay un k 2 Barray Maqsad thy:
1:
Ali(a.s) ko
Huzoor (S.A.W)ki Nmaz e Janaza prhane ka jo Sharf mila,
Usay Chupana tha,
QK
Agr ye Sharf Mashör ho gia,to
Es se ye Hqiqat waazeh ho jae gi k:
Hzrat Ali(a.s) hi
Ap(S.A.W) k
"FARSH E AZAA"
pe Haazir thy.
Mgr
2sre Sab Ghaaib!

2:
Apne Barron ko,
NAMAZ E JANAZA
mn Ghair Hazer rehne k Jurm mn, Es Ummat k Gusay, Nafrat se Ye keh kr bachana tha k:
Rasool(S.A.W) PAK hn,
Lehaza!
PAK ka JANAZA
nhi hota..!

ALI WARIS

Aj kal kuch
GUMRAH AQIDA log, Muslimanon ko Deen k Naam pr, Aal e Rasool" se Door krne ki Koshish mn din raat Masroof hn.
0r wo
Mukhtalif Andäz se, Un k Zehnon mn AhlBait (a.s) k Mutalliq
SHAK O SHUBHAT paida kr rhe hn..

Un mn se ek ye hy k:"ALI WARIS"
Kehna GUNAAH hy!
=>
Aaen! QURAN se Pochhen k,Allah ne apne Siwa, kisi Or ko Waris hone ka HAQ dia hy?
:
1:
ZAMEEN K WARIS ?
"Zmeen ALLAH Ki hy,Wo Apne Bandon mn se Jis Ko Chahta hy "WARIS"Banata hy."
[ARAAF/128]

2:
QURAN K WARIS
?
"Phr Hm ne Is Kitaab Ka "WARIS" Un Ko Qarar diya Jinko Hm ne Apne Ibadat Guzar Bandon mn Se Chun liya."
[FAATIR,/32]

Maktabe Ahlebait

Maktab e Ahlbait 0r
*FITRI AMAL*

Ye Fitri Bät hy k jön jön Ap(S.A.W )Sahäba k Beech Ali(a.s) k Fzaa'il Biaan krte gae to Haqiqt Psand log,unki M0HBAT mn un k Gird Parwano ki trah jamma hote gae
Bil Aakhir es Giroh ne, 1- Nazriyati Jmaat ki Sörat Akhtiar kr li.
Isi Jama'at ko Khud Nabi Pak ne Apni Zbän se "ALI k SHIAA" ka khaas Naam dia.

Ap(S.A.W) ki Zindagi mn ye Jama'at, Huzoor ki Noor e Nazar rhi.jin k Qaa'id ALI(a.s) thy.

Esi Jmaat ne
Huzoor ki rehlat k Baad, Deen o Duniya k Masa'il mn, Ali k Ilm se Faiziyaab hone ko Tarjeeh di.
0r
Aaj ye jmaat
FIQAH E JAFRIYA k Naam se Mashör hy..

Musalmano Ki Bhayanak Tarikh

Musalmano ki
bhyanak tariakh
>>10 Hijri: Hujja-tul-Wida k mauqa per Muslmanon kitadad
150000 thi.
>>Rasool-e-Akram (s.a.w.a.w) K janazy mein faqat 7 Muslman shareek howay.
>>11 Hijri: Hazrat Fatima (s.a.) K janazay mein faqat 9 Muslman shareek howay.
>>40 hijri man imam Ali (a.s) k janaza man seraf 4 afrad ny shirkat ke >>50 hijri man Imam Hasan (a.s.) K janazay mein faqat 13 Muslman shareek howay.
>>61 Hijri: Imam Hussain(a.s.) K janazay mein aik bhi Muslman shareek na tha.

Asif bin Barkhia

SULEMAAN (A.S)
k Jaa Nasheen
ASIF bin BRKHIAB

0r

RASOOL E PAK
k Jaa Nasheen
"MOLA ALI (A.S)"
=>
Abu Saeed khdri
(Sahabi e Rasöl)
se Rivayat hy k:
Ek din
Mn ne Ap (S.A.W) se Suleman(a.s) ki Daastaan mn Mazkoor, Es Haqiqat k Baare mn Swaal kia k:
"MALKA e SABA k "TAKHT"ko Jo ek Palak Shapakk mn le kr Aya. us k Paas to Kitaab ka"Thora sa Ilm" tha."

Huzoor(S.A.W)ne Irshaad frmaya
:
Wo Suleman Bin Dauood ka Jaa Nasheen
ASIF bin BRKHIAB
tha

Phr Mn ne Ap se
Söra e Ra'ad ki Ayat 43:
"Kehdijiay! k
Mere 0r tumhare drmian,Gawahi k liay to
Bass!
Ek Allah 0r 2sra wo Shakhs kaafi hy k jis k Paas, Kitäb ka Pöra Ilm hy."

Huzör(S.A.W) ne frmaya
:
Wo mere Bhaie 0r Wasee
ALI ibn Abi Talib hn,(k jis k Paas kitäb ka Pöra Ilm hy)
Rf:
AHQAQ ul HAQ
Tafsir e Namöna

Momin Hona Lazim Hy

"Momin"
hona lazm hy:

Soora Nisa/124:
0r Jo, Naik Amal baja la'ay,
Khuwah!
Wo Mard ho
Ya Aurat.
(Mgr Shart hy k)
Wo"Momin"hon
to
(Sab) Jannat mn Dakhil hon ge,
0r
un pr Zara bhi Zulm na ho ga."
=>
Ye Ayat bata rhi hy k:
Wo hi Shakhs apne Naik Amal ki Badolat Janat mn dakhil ho ga, jo "Momin" hy.
Agr
"Momin"Nhi to usay us k Naik Amal ka Swaab Hrgiz nhi mile ga..

Ab dekhna hy k:
Quran o Hadees ki Nigaah mn, Momin kise kaha gia hy?
0r us k Ausaaf
Kia hn?

Monday, April 5, 2010

Momin ke Ausaf

"MOMIN"
k Ausaaf:

Quran mn Buht se Maqamat pe Momin k Osaaf ko bayan kia gia hy.
Mgr
Söra e Mominön hy hi Mominin k Mutalliq..,Jaisa k es Söra k Naam se hi Zaahir hy.

Es Soora ki Ibtadaie kush Ayaat ka Trjma pesh hy:

=>
Shuroo Allah k Naam se,...
*
Mominin Kamiäb hue
*
Wo jo Namaz mn Ijz o Inksari krte hn
*
0r Jo Be Hoodagi se bachte hn
*
0r jo Zakaat dete hn
*
0r jo apni Sharm Gahon ki Hifazat krte hn
*
Sawa e Apni Bivi o Kaneez k,
Q k
Un k Silsle mn wo la'iq e Mlamt nhi hn
*
0r Es raaste se Inhräf krne wala hi tajawaz krne wala hy
*
0r
wo jo Amänaton 0r Waaidon pr Pöra utarte hn
*
0r wo jo Apni Namaz ki Hfazt krte hn
*
Beshak! Ye hi
"WAARIS" hn
*
0r ye hi
Firdaus e Barien k Waaris hon ge 0r wo us mn Hmesha rhen ge.

*SUBHANALLAH*

Matam in the Quran

*TAJJUB / GHAM KI KEFIAT MEN AGAR PEET LIA JAE TO KOI AIB NHI*
Surah Zariyaat Ayat 29:
(BETY KI BISHARAT MILNE) par Ibrahim A.S ki bivi chillati aie, or apna Moo(face) piet kr aie.

Esi Tarah Nabi pak k samny 1shakhs Rozy k totne k ghaam men peetta aya.

Ab sawal ye he k:
Anbiya ae hi isi liay k Ghalat baat ki islaah kren, Wo bhi agar un k samne jab ghalat kaam ho to be darja Oala un pe Farz hota hy k un ko usi waqt Ghalat kahen. . . Etc
Hazrat Ibrahim or Muhammad Mustafa (s.a.w) ne Q Ghalat nhi Kaha?

Haqiqi Momin

"HAQIQI MOMIN"
Az Nazr e Quran
=>
Momino!
Agr Ham
"Haqiqi Momin" k Mzeed Ausaaf se Agahi Hasil krna.
0r
Apne Ap ko, Un
Hqiqi Mominin ki "Saff" mn khara krna Chahtay hn,
to
Hmen Chahiay k
Uloom e Ahlbait ki roshni mn likhi hui "Quran" ki TAFASEER ka aj hi Mutaale'ah Shurö kr den..
=>
Söra e Anfaal,
ayat: 2,3,4:
Momin Sirf wo hn k Jab Allah ka Naam lia jae, to un k Dil Darnay lagte hn, 0r Jab un k Samnay us ki Aayaat prhi jaen to un ka EMAAN ziada ho jata hy,
0r wo Sirf apne "Rab" pr Tavakul krte hn.
*
Wo Namaz baja latay hn, 0r Jo kush Ham ne un ko dia hy us mn se (Allah ki raah mn) Kharch krte hn
*
Wo hi to
"HAQIQI MOMIN"
hn k jin k liay un k Rab k Paas (Be Hisäb) Darjaat hn, 0r Un k liay
Maghferat O Bakhshish, 0r Be Aib RIZQ hy.
*SUBHANALLAH*

Ilme Rijaal o Diraya

ILM-UL-RIJAAL
Wa
ILM-UL-DIRAAYA

Fitri baat hy, k jab bhi kisi baahosh Insan k paas koi "KHABAR" pohnchti hy, to wo us Khabar pe yaqin krne se Qabl uski shaan been ki justajo krta hy...
Esi tarh Hadees bhi ek Qism ki khabr hy... K jis pe Amal krne se pahly uski shaan been ki jae...
Lehaza ye Fitri justajoo or Qurani Hukum(SURAH HUJRAAT/7) sbab bana k, aisa Qanoon wazaa'he kia jae k jis ki madad se Hadis k sahi or Ghalat hony ka pata lagaya jae...
Sadion pahly sunni,Shia Mohaqiqo ki koshisho se 2 ILM wujood me ae
1. Ilm-e-Rijaal
2. Ilm-e-Dirayah
Ab en k zaria se Hadees ki Haqiqat Maloom ki jati hy k ye Hadees Sahi he ya Za'eef.

Moon aur Masoomin

Chand ki herkat per ghor kerain tow anokha inkashaf hota hai kay pehli tareekh say roshan hona shoroo hota hai aur '14' tak mukamal roshan ho jata hai aur jaisey '14' ko chorta hai us ki roshani kam hona shoroo ho jati hai aur jab mahina khatam honey main '3' din reh jatay hain tow mukamal andherey main chala jata hai. Yeh amal takhleeq kainat say jari hai yani 14 ki roshni aur 3 ka andhera.

*Sahabi-e-Rasool Amaar Yaasir*

Ahl-e-Sunnat ke Buhat barre Mo'rrikh "Umar Abu Nasar" Apni Kitab: "Khulfaa-e-Muhammad"(s.a.w.w) ke page # 156 per Likhty hen ke:

RASOOLULLAH k Jaleel ul qadr Sahaabi "Amaar Bin Yaasir" or un ke Sath kuch Sahaaba Kufa ke Governor "Walid Bin Atba" ki Shikayaten Maslan: Wo Sharab pi kar Namaz parhata hy, or 2-rakat ki jaga 4-rakat parha jata hay...etc

Ek khatt main likh ker Hazrat Usman ke Haan Puhnchy, Dosry Sahaaba to Khof se Peechy Hatt gae
Magar
Ammar Yaasir ne wo Khatt Hazrat Usman ko Haath main dia...
Un ke Paas un ke Cousin MARVAAN or dosre Aziz bhi thy... Jab Hazrat Usman ne wo khat parha to Marvan ne unko Mashwara dia k AMAR YAASIR ko Qatl karva do... ye Logon ko ap ke Khilaaf Bharrkata hy..

Ye Sun kar Hazrat Usman ne Hukum dia isko Maro... Or Khdu bhi AMAR ko marne men shamil hogaya, Yahan tak ke unka Shikm Zakhmi ho gaya... or Wo Beshosh Hogae.
Uske Baad Un logon ne AMAR ko Ghaseet kar Ghar k Darvaze par Daal Dia.

Note: Vidoe Reference ke lie Islamic Film Shaheed-e-Kuffa dekhay. Or Book ka Reference Oper de chuka hoo.

Note: FACEBOOK PE SHIA Messaging Services ke Group ko Join Karnay k lie yahan Click Krain. SHIA MESSAGING SERVICES on FACEBOOK.
Share

Sunday, April 4, 2010

*Momin Pe Ek Aur Ilzaam*

Bad Niyyat Log,

Momin Pe Ek Aur Ilzaam Lagta He Ke:
Shia Kahte hen ke Nabuwaat Hazrat Ali ko Milni thi... Magar Jibraiel (a.s) ne Khayanat karte hue Nabuwat ko Hazrat Muhammad (s.a.w.w) Ke Hawaly kar dia...

=> ALLAH O AKBER
Dosto! Ye Sab Kuch 3no Ki Fazilat ko Barhane ka ek Bahana hy.. Kiun Ke en Logon Ki Kitaben Gawah Hen, K jin Men likha Hy ke:
Huzoor Pak ne Farmaya: Mere Baad Koi Nabi Na hoga.. Agar Hota To Zuroor "Umer" Hota...etc

Dosto!
Ye Bilkul hi jhoot hy.

=> O Muslimano! Jiss ALLAH k Nabi ne, En ko apna Khalifa Tak Banana Pasand na kia, To wo ALLAH usko Kaisay Nabuwat dena Passand karta.

Es Ki Gawahi Sahih Muslim (book) ne Di hai....

Our ap ye Blame laga ke kya Bayan karna Chahte hoo ke... Jabraiel(a.s) ne Khayanat kar ke ALLAH ke Hukum ki Na farmani ki ... us k baaWajood bhi ALLAH nay Usay Apnay Uhday pe Qaim Rakha? kia Khuda k Pass Insaaf Nahi?

Note: FACEBOOK PE SHIA Messaging Services ke Group ko Join Karnay k lie yahan Click Krain. SHIA MESSAGING SERVICES on FACEBOOK.

Saturday, April 3, 2010

*ILM-O-AMAL*

Ilm-o-Amal Ke Sabab se IZZAT-o-SHARF or Dostom men Izafa hota hai.

Magar

Daulat,Shuhrat or Kam Ilmi, Jehil ke Sabab Dost kam Hoty hain,Jab ke Dushman Or Mukhalif Barhte challe jate hen...

=> ILM ko Hasil Kro, Us Azeem "DAR" se ke Jis ki Taraf Mutawajja Kerte Hue, "Aashiqan-e-Ilm" ko, RASOOLULLAH (s.a.w.w) be Farnaya:
"MEN (MUHAMMAD S.A.W.W) ILM KA SHEHAR HON OR IMAM ALI (A.S) US KA DARWAZA HEN".

Dosto!
Yahan se jo ILM Hasil hoga wohi Dunia-O-Akhirat men Nijaat ka Baa'is Hy... 100%

Join SMS - Shia Messaging Services on FaceBook Click here.

*SORAH-E-KAUSAR KI TAFSEER*

Imam Fakhr-ud-Deen Razi(rh) ne "Kausar" ki tafsir k Zimn men, Kia Umda Baat Kahi hy k:
"Sorah-e-Kausar, Un logon ki Muzammat men Nazil hui hy, jo Ap(s.a.w.w) ko Aulaad na hone pr, "TAANA" dia karte thy..
Lehaza! Es Bina par, Es Sorah ka Maana(meaning) ye ho gi k:
Ae Mohammad(s.a.w.w)! ALLAH ap ko aisi Nasall(Aulaad) ata krega jo Qayamat tak baaqi rhe gi..."

Zara Ghor to Kro!
Logon ne Ahl-e-Bait(a.s) k kitnay Afraad ko chun chun k Shaheed kia.. Lakin us k Baa wujood bhi Dunia,Huzoor(s.a.w.w) ki Aulaad se bhari parri hy.
Jab k BANNI UMAYYA jo Ahl-e-Bait(a.s) k Sakht Dushman thy, ka koi Qaabl-e-Zikr Shakhs tak Dunia men Baqi nhi raha...
O Muslimano! Zara Dekh to Sahi k: FATIMA ZAHRA(s.a) ki Aulaad k beech
IMAM BAAQIR,
IMAM SAADIQ,
IMAM RAZA... jaisy kitne Azim Paishwa Ummat ko Naseeb hue hen.


Ref:
Tafseer-e-Kabeer
VOL:32. Page 124

Join SMS - Shia Messaging Services on FaceBook Click here.

*SHIA NAMAZ MAIN SALAM KION NAHI PHAIRTY*

Sawal hua ky k:
Ap Momin Namaz men Salam Kiun Nahi Phairty? Es ka Kia Sabab Hy?

=>

Ans:


Namaz Khatam hone se Pehle, Namaz men Qibla se Moo Phairne se Namaz Toot Jati hy,(Baatil ho jati hy.)

Dosto!
Zara Thorri dair k lie, En Sawal pe Ghor to Kren...?
K
Jo log, Namaz me Salam phairte hen... Zara Bataen to Kia Salam Namaz ka Hissa Nhi? Agar hy... To Zara Sochen k "MOO PHAIRNA" phir Chahay Namaz ki Ibtida men ho, Ya beech men, Ya phr Akhir me..!

En Tmam Sorton men Namaz 100% Toot jati hay,
To
Manena Parega ke Salam ke waqt Moo phairna ya to Namaz men Shamil hi Nhi..!

Agar Namaz ka Hisa hy to phir Yaqeen kar lo!
Ke
Namaz Qabool hone se pehle hi RADD ker di jati hy.

Ye Kaisa Ishq hy k Jab Mehboob ko Salam krne ka waqt ata hy to "Mehboob" se apna Moo phair lia jae...

Allama Iqbal ka ek Shair yaad araha hai k..
"Zahid! Teri Namaz ko kaisy Kahoon men Namaz?
ke Waqt-e-Salam phir gia Kaaby se Moo Tera."

Join SMS - Shia Messaging Services on FaceBook Click here.

NAMAZ ME HATH KA BANDHNA OR KHULLA RAKHNA

Kisi bhi Musashry ka Tawaazun BarQaraar rakhne ke Liay Zaroori hy k, Zimadar Afraad, Awaam-un-Naas k liay ek aisa Maahol Qaaim Kren jo,
Adl-o-Insaaf or Musavaat per mabni ho.

Dosto! Yaad rahe k Insani Moashary men Fasaadat or tak'rao ki Faza us wakt Paida hoti hy, Jab us Mahol men Zindagi Basar krne walo ka, Aik 2sre per Aitmaad Uth jae or Aitmaad tab uth jata hy jab logon ki 2-Zabanen ho jaen..

(Yaani!.. Jab aik hi Shakhs, kisi aik Cheez k Baary men 2 Alag Alag Baat karne lage..)
=> Dosto! Aj kal ek Msg buhat Gardash kar rha hy k:
"Namaz men Hath ka bandhna bhi Sahi hy or Khulla rkhna bhi Sahi he... ETC
QK
2no Tariqay RASOLULLAH ne Anjaam diay hen."

!
Doston Kitna Tajjub hy k, log Apne Amal ko Sahi Dikhane ki Khater, RASOLULLAH pe kitna barra Ilzaam laga rhe hen!

Momino! Qurani Talimaat Seerat-e-Rasool (s.a.w.w) or AQLI DALAA'IL se ye sabit hy k ALLAH ka Qanoon (DEENI HYKUM) Hamesha se ek hi Shikl ka hota hy.
Join SMS - Shia Messaging Services on FaceBook Click here.

*IMAM HUSSAIN SE NABI PAK KI BELOS MOHABBAT*

*IMAM HUSSAIN SE NABI PAK KI BELOS MOHABBAT*

Rasoolullah (s.a.w.w) ki Zindagi ky 6-year hi fakat Imam Hussain (a.s) ko Naseeb hue... or Ap(s.a.w.w) K 6-Saloon(year) main, En shahzadoon se Mohabbat k Aisay lataadad Misal milte he, jin se Hasnain ki Azmat wazeh Hojati he:
Example:
* - Hussain(a.s) k Roony se Ap(s.a.w.w) ki Ankhain Bhar Aati...
* - Agar Hussain Masjid me gir parte to Ap(s.a.w.w) Khutba k beach, mimber chor kr utar aaty or Sahaba se yuon Farmate: Logo mere Amal se En ko Pehchano!
* - Agar kabhi Namaaz me PUSHT pe Sawar hojate, to ALLAH ka hukum aa jata k jab tak Hussain apni marzi se na utre to Sajiday se Sar tak na uthana ... etc....

Ref: Tarikhi Kutb
Join SMS - Shia Messaging Services on FaceBook Click here.

ALLAH” k Bary me “SHIYOON” ka aqida

Ye Nechy underlined SMS mujhy kisi Aziz nay send kia tha. Kion k wo khud na to Aalim hai naahi Islami talimaat ky talib-e-Ilm, lihaza mujhy unsay koi shikayat nahi par nechy me es SMS ki Calrification de raha ho,. …

ALLAH” k Bary me “SHIYOON” ka aqida

1 – Ham us Rab ko nai manty jis ne USMAN Bin AFFAN or MUAVIYA Bin ABI SUFYAN jese BADQUMASHON ko hukomat di ha

(KHUMENI SHIYA ki kitab ‘kashfe Israr’ Safha No: 107)

2 – ALLAH kbhi kbhi jhoot bolta he, or ALLAH se bhi bhool hoti he’

(YAQUB KULINI SHIYA ki kitab Usooly kefi safha No:338)

Kiya “ALLAH” k bary me yah akida rakhny wala muslman hogaa?

SMS RECEIVED ON: December 27th, 2009 – Sunday - Time 2:50:58


Reply: -

Pahly Galat Afkaar (Bayanaat) Ki Clarification:


ALLAH k baray mai Shiyon ka Aqeeda Galat bayan kia gaya hai our reference apny man gharat lagaye gaye hyn, Bulke Ravayat aur reference dono hi khud banaye gaye hyn!

Aqeede k mamly main Shiya buhat sakht hyn. Khuda ka Aadil hona Shiyon k Usool-e-Deen main ata hy.
Nabi-o-Imam shiyon k nazdeek pedaishi Nabi ya Imam hote hyn Aur MASOOM hote hyn. Jab khuda k Muntakhib karda Bandy kabhi koi Gunah nahi karte to khuda ki taraf jhot aur Gunah mansoob karna……………?

Jab k dusri taraf Ahl-e-Sunnat ka Aqeeda different hy, Suniyon k nazdeek Nabi jab tak Nabuwat ka Elan nahi karta Nabi nahi hota (Aam insane hota hy), aur Elan karne k bad bhi Gunah kar sakta hy jese:
1 – Hazrat Ibrahim (as) ne 3 jhoot boly (Suraj,Chand aur Sitare ko apna khuda keh kar).
2 – Hazrat Younis Gunah ki waja se Machli ke pet main gaye!
3 – Hazrat Suleman ne apne Parosi ko qatl karwadiya, aur uski Bivi per dore dale!... aur Blah blah…

Jinhoon nay khuda ke burgzeedah Bando ko Nahi bakhsha to wo khuda k sath kya krenge? Halanke wo bhool hi chuke hyn, unka khuda jism rakhta hy jise ye Qayamat k roz dekhnay wale hyn!

Our Asool-e-Kaffi kion ke Ahadees ki kitab hy…. Jis ki har baat(Hadees) Nabi,Ali ya Imam ki taraf mansoob hy… SMS banana wale ko chahiye tha k Ravayat ko poora likhe (Nabi ya Imam ki taraf se)… k ye rawayat he ……… Nabi ya Imam ki jis k ravi ….. hen he our bayan houa k ALLAH jhoot bolta hai our bhool jata hai, aur page number k sath jild number batata to tahqeeq me asani hojati.

Note: - Main ap tamam doston ki khidmant me Asool-e-Kaffi ki jo 5 jild hai jis main se ek jild k total page itny nahi jitna refrance ka page bataya gaya hai, baqi 4 jildoon k page number 338, apki satisfaction k lie yahan share kar die hai.

YE GHAFTAGO SHARIE LIHAZ SAY NAHI KI GAYE... YE JUST LOGON K GALAT REFRANCE K HAWALY KUJH BATAIN MISAAL K TOOR P UN KO YAAD DILAYE HAI K..

{Thanks to Mr. Azhar Abro - who Share All the above Information}
Join SMS - Shia Messaging Services on FaceBook Click here.




Hazrat Hussain (r.z) ne Karbala main Kia Kya?

Azizo! Muharam k dino main ye baat note ki gaye k Ek Tanziya SMS hamaray tamam shia dostoon ko bheja gaya… jo SMS me ap ko yahan share kar raha hoo, aur us ka jawab b Likh raha hoo, especial un doston k lie jin ka Mobile number mere pass nahi hai…

Hazrat Hussain (r.z) ne Karbala main

“Ya Ali Madad” kaha Ya “Ya Allah Madad”?

Sabar kia ya Matam?

Jihad kia Ya Takya?

Parda Sikhaya Ya Be’pardigi?

Quran Parha Ya Matmi Marsiya?

Namaz parhi Ya Ghory ki Poja ki?

Reply: -

Pahly Galat Afkaar (Bayanaat) Ki Clarification:

Ya Allah Madad Kahne Say Kisi Shia Ko Koi Etraz Nhi, Per Sub Category Me Ya Rasoolallah Madad, & Ya Ali Madad... Khud Anbiya Ka Sha’ar Raha Hay… Nara Waqt Ki Nazakat Se Lagaya Jata Hy Is Liye Fil Waqt Ya Ali Madad Ki Zyada Zarorat Hy.

Ghore K Pooja NAHI Ki Jati, Ye Ek Tamseel Hy Imam Hussain (A.S) Ki Zuljanah Ki, Is Ko Tabarruk K Khatir Chooma Jata He, Jesay Kaa’be Ki Tasveer Choomi Jati Hy, Ya Roza-E-Rasool Ki Tasveer Ko.

Namaz, Quran, Parda… Sub Shia (Muslaman) Parhte Aur Karty Hyn, Jo Nhi Karta Wo Uska Zaati Masla Hy, Jiska Wo Jawabdeh Hy.

Jihad,Sabar,Takiya Aur Matam HAALAAT Ke mutabiq Hote Hyn, Us Waqt Jo Munasib Aur Zaruri Tha Wo Imam Hussain (A.S) Ne Kiya.

Matam Choonke Karbala Ke Waqie Per Kia Jata Hy, Is Liye Imam Hussain (A.S) K Bad Sabhi Aima Ne Kia. Aur Jisko Hussain (A.S) K Shion Ne Zinda Rakha, Agar Shaiyane Hussain (A.S) “Matam” Ko Zinda Na Rakhty To Tum Yazeed (Lanti) Ko B Apna 6th Khalifa Manty. Jesay K Pahly 3,4 Ko & 5th Mavia Ibn Abu Sufyan And 6th Yazid (Lanti) Ko.

Ab ek sawal main un doston say karna chahunga

jo oper UNDERLINED, sms p yaqeen rakhtay hen k …

ap nay Hazrat Hussain (r.z) likha hai ….

Jab k Quran Pak ki Sorah # 37 Saaffat ki Ayat # 130

Urdu Translation: -
(Salaam ho Aal-e-Yaseen par)

Jab Quran main Aal-e-Yaseen par salamti he, to (a.s) na likh k kia Quran ki khilaf amal nahi karty?

{Thanks to Mr. Azhar Abro - who Share All the above Information}
Join SMS - Shia Messaging Services on FaceBook Click here.

ALI WARIS KAHENA JAI'Z OR NAJAI'Z

Aslam-O-Alaikum,


Azizo, nechy Quran ki ayat turjumay k sath ap ke lie likh raha ho, jo kisi Muhtaram nay Quote karty hue Sawal kia k Ajkal Har Garri (vehicle) pe “ALI WARIS” likha hua nazar ata hai, our ye log jo apni garri p ALI WARIS ka poster lagaty hai wo Quran ka Munkir hai Kaffir hai.

آجكل هر گاڑی پر "علی وارث" لكها ہوا ہے
آؤ قرآن سے پو چھتے ہين كہ وارث كون ہے
¤ وإنالنحن نحيي ونميت و نحن الوارثون ¤
اور بيشک هم ئي زنده كرتے ہين اور هم ئي مارتے ہين اور هم ئي وارث ہين.
(سوره الحجر 23 ) قرآن كامنكر كافرهي



Ye to us Muhtram ka send kia hua hisa apnay parha …. Me un Muhtaram k lie arz karunga k ......

Allah, Nabi, Ali
WAARIS

Momino!
Ham kush dinon se ap ki Khidmat
mn "Waaris" k topic pe SMS bhej rhe hn..

Hm ap tak ye waazeh krne ki koshish kr rhe hn k:
Allah k Siwa,Us k Nabi (S.A.W) 0r ALI (a.s)...ko
WAARIS kehna Jaa'iz hy..?

Dosto!
Jo log
Es k Mukhälif hn ,
Hm un k liay ye kehte hn k Agr

"Nabi, Ali Waaris"

Kehna,

Na Jaaiz hota,to
Allah Taala (J), Quran mn es lafz ki Nisbat, apne Siwa kisi Aur k liay
Hrgiz na deta..
Hm, ap ko un Qurani Ayaton k Naam , Ayat N0 bhej rhe hn, Ap Khud un
"Qurani Aayaat"
ko Ghor se Prhen 0r faisla den..

Soorah # 23 Mominoon – Ayat # 10

Soorah # 7Aaraaf – Ayat # 128

Soorah # 19 Maryam – Ayat # 63

Soorah # 27 Namal – Ayat #16 ...etc


Dosto!
Aaiay!
Arbi Dictionary ko Prhen k Us ne Waaris ki kia Maana hn?
"WAARIS", Arbi ka Lfz hy jis ki buht si Meenings hn:
Maalik
Walee
Madadgaar
Haami..etc

MUSLIM DUNYA K 5-FIQH, MAZHAB OR UN K BAANI

1:-
Fiqh-e-Hanfi

Baani: Imam Abu Hanfia
Year of Birth: 80 Hijri

2:-
Fiqh-e-Maalki

Baani: Imam Maalik
Year of Birth: 95 Hijri

3:-
Fiqh-e-Shaaf’ie

Baani: Imam Shaafie
Year of Birth: 150 Hijri

4:-
Fiqh-e-Hanbali

Baani: Imam Hanbale
Year of Birth: 164 Hijri

&

5:-
Maktab-e-Ahl-e-Bait

Maaroof Ba Shia / Imamiya / Fiqh-e-Jaafria

Ye wo Maktab hy k: Jisy Rasool Pak (s.a.w.w) ki khaas Taaed Hasil Thi… K jin k Qaaid “Hazrat Imam Ali (a.s)” thy…
Yehi wo Jammat hy k jisay Allah k Rasool (s.a.w.w) nay Jannat ki Bisharat di hy.

DUA KI QABOOLIYAT K SHARAA'IT

<>AADAB-E-DUA<>

BaWazoo hona,
Qibla rukh hona,
Khushboo lga kr,
Huzoor-e-Qalb k Saath,
Allah pe Yaqeen-e-Kaamil hona,
Dua se pahly Sadqa dena,
Dua Mangne se Pahle, "ALLAH PAK" ki Hamd o Sanaa Karna,
Dua se Pahly RASOOLULLAH or unki Aal-e-Pak par Durood, Salvaat Kasrat se parhna,
Ghair shar'ie kaam k liay Dua na Karna,
Girr Garra kar dua karna,
Apni Haajat ko Allah k Saamne Ashqbaar Ankhon se Bayan karna,
Dil hi Dil main Rab se Dua Mangna,
Apni Dua men Sab se pahle Apne Momin bhaie k liay Dua Krna,
Ijtimaa me es tarah k 1-Momin Dua mangay, to 2sre Momin "Ameen" kahen,
ALLAH k Huzoor apni Zillat, Aajzi or Kamzoori ka Iqraar kr k Dua karna,
ALLAH k Huzoor Usay Muhammad wa Aal-e-Muhammad ka Wasta de kar dua karna,
Waqt Dua girya karna,
2no Haath utha kr Dua karna,
Wakt-e-Dua Hath men Aqeeq ya phir Fairoza ki Angothi Pehni ho... ETC

Ref: Naqoosh-e-Ismat

ALLAH OR RASOOL KI FARMANBARDARI

ALLAH OR RASOOL KI FARMANBARDARI
=> Sora Ahzaab / 38:
Koi bhi ba Eman Mard Or Aurat Ye HAQ nhi rkhta k Allah or us ka Rasool Kisi Amr men koi Faisla kar den, usay Qabool karne se inkaar kr de.
(Yaad rakho!) Jo Shakhs Allah or us k Rasool ki Na farmani kre ga, aisa Shakhs Wazeh Gumrahi pr hay.

=> Sora Nisa / 65:
Tumharay Rab ki Qasam! wo us waqt tak Eman k haqiqat tak nahi pohch skte, jab tak k tujhe apne Ikhtilafat men Haakim or Faisla krne wala tasleem na kar len or phir tere kiay huie Faislay se Zara braber bhi Narazgi ka Izhaar na kren Or Mukamal taur pr sar Tasleem e Kham kr den.